غیرت کے نام پر قتل ۔ صدیوں سے جاری رسم

 

نور المالکی عراقی  والدین کی بیٹی تھی۔ اس کی ماں امریکی ایجنسیوں کو عراقی کلچر کی تعلیم دیتی تھی ۔ نور جب ہائی سکول میں پہنچی تو نظریات کے ٹکراؤ کی وجہ سے  اس کی والدین سے کشیدگی میں اضافہ ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہائی سکول کے دوران اس کے والد نے عراق واپس لیجا کر اس کا نکاح بھی کر دیا۔ نور کے اٹھارہ سال کے ہونے تک حالات اتنے کشیدہ ہو چکے تھے کہ ایک دن نور نے اپنے باپ کی گاڑی کہیں دے ماری ۔ ایکسیڈنٹ کی جگہ جب پولیس پہنچی تو نور کا باپ انتہائی غصے میں وہاں موجود تھا۔ بقول پولیس والے کے المالکی نے یہاں تک کہا کہ ان کی تہذیب اور تمدن امریکی قانون سے بالاتر ہے اور اگر اسے ضرورت پڑی تو اپنی روایات کے پیچھے وہ قتل کر کے ساری زندگی جیل میں گزارنےکو فوقیت دے گا۔

 

 

 

 بات یہاں ختم ہو جاتی تو اچھا تھامگر ایسا نہیں ہوا۔ نور اٹھارہ سال کی ہوتے ہی ماں باپ سے الگ ہو گئی اور اور ایک عراقی خاتون امل جسے وہ آنٹی کہتی تھی کہ ساتھ رہنے لگی۔ امل کے ساتھ رہنے میں شاید امل کے بیٹے میں نور کی دلچسپی بھی ہو سکتی ہے۔ ایک دن جب نور اور امل ایک کار پارکنگ سے پیدل گزر رہی تھیں تو المالکی نے ان  پر اپنی گاڑی چڑھا دی اور وہاں سے بھاگ گیا۔ یہ قصہ 2009  کا ہے اور امریکی سٹیٹ ایریزونا میں پیش آیا۔   

 

 

 

باہر کے ممالک میں اونر کلنگ یا غیرت کے نام پر قتل کی بازگشت اکثر سنائی دی جانے لگی ہے۔ اسی طرح کا ایک قصہ کنیڈا میں پچھلے دنوں پیش آیا تھا۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو مسلمان کمیونیٹی مخمصے میں پھنس جاتی ہے۔ حق اور سچ کے ساتھ کی بجائے نسل اور قوم کا ساتھ دینے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ میرے لئے ایسے واقعات اپنے اندر ایک تکلیف دہ سی کشش رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہو گزرتا ہے تو میرا اصطراب بڑھ جاتا ہے چاہے وہ پاکستان میں ہو یا امریکہ میں یا پھر دنیا کے کسی بھی کونے میں۔ اس بیچینی کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کا عمومی رویہ اور ان کے نظریات ہیں۔ ایسے واقعات کو جس قدر سرسری انداز سے ہمارے ہاں لیا جاتا ہے، ایسا دنیا کے کسی کونے میں نہیں ہوتا۔

 

 

 

دنیا میں محبت کے نام پر عورت قتل ہوتی ہے تو کہیں نفرت کے نام پر۔ کبھی وہ زندہ جلائی جاتی ہے تو کبھی تیزاب سے جھلسائی جاتی ہے۔ ریپ اور گینگ ریپ کا بھی شکار ہوتی ہے اور اغوا بھی کی جاتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ اقوام میں بھی عورت کا استحصال زور شور سے جاری ہے ۔ مگر حیرت انگیز طور پر مغرب میں اونر کلنگ یا غیرت کے نام پر عورت کو بھینٹ نہیں چڑھایا جاتا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مغرب میں غیرت کا کوئی کنسیپٹ نہیں ہے تو اس لئے یہاں غیرت کے نام پر قتل کیسے کیے جا سکتے ہیں۔ چلیں اسے سچ سمجھ لیتے ہیں اور اپنی تہذیب کی بات کرتے ہیں۔

 

 

 

ہماری تہذیب عرب کی تہذیب سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ عرب جن پر نبی الآخرزمان، رحمت العالمین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عرب اپنی بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ عورت کا وجود باعث شرم اور ذلت بنتا ہے اور باپ بھائیوں کے سر شرم سے جھکانے کا باعث بنتا ہے۔ محمد ﷺ    کی آمد نے نہ صرف عرب تمدن کو بدل دیا بلکہ دنیا میں پہلی بار عورت کو امان اور تکریم ملی کہ وہ دنیا میں سر اٹھا کر جینے لگی۔ کہتے ہیں کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ کے نام کا مطلب امان دینے والی ہے یعنی ان کا وجود ایک ایسے وجود کو اس دنیا میں لانے کا باعث بنا جس نے کمزور کو طاقتور بنا دیا ، رذیل کو عزت دے دی اور تمام دنیا کی عورتوں کو زمانہ جہالیہ کے رسم و روااج سے امان دی۔

 

 

 

مگر دیکھا جائے تو محمد عربی کی امت میں سے کچھ  آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ محمد عربی کے آنے سے پہلے کھڑے تھے۔ محمد کے آنے سے پہلے بھی عورت کو باعث شرم سمجھ کر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور اب بھی اس کی ذات سے منسوب شرمندگی کے ڈر سے اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور خود کو  دنیا کی افضل ترین قوم سمجھنے والے غیرت کے نام پر جس بے غیرتی اور ڈھٹائی کا ثبوت دیتے آ رہے ہیں، اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ چودہ سو سال سے پہلے کے عرب بدو اور آج کے ایسے باپ، بھائی ، شوہر میں کیا فرق ہے جو غیرت کے نام پر اپنی بیٹی، بہن، یا بیوی کا قتل کر دیتے ہیں۔ وہ بھی اپنی عزت اور ناموس کیلئے قتل کرتے تھے اور آج کے سو کالڈ مسلمان بھی اسی کو وجہ بنا کر قتل کر دیتے ہیں ۔

 

 

 

جب اختر مینگل جیسے لوگ تین عورتوں کے زندہ دفنائے جانے کو اپنے کلچر کا نام دیتے ہیں تو نام نہاد مولوی اپنے ممبروں پر بیٹھے مسکراتے رہتے ہیں اور کسی سیاست دان کے ماتھے پر بل نہیں پڑتے۔ عام عوام ظلم کی چکی میں پس پس کر خود بھی ظالم ہو چکی ہے۔۔۔۔ اسے کوئی ظلم اب ظلم نہیں لگتا۔ انسانی حقوق کی تنظمیں بھی کچھ دن واویلا کر کے چپ کر جاتی ہیں اور این جی اوز بھی ۔۔۔۔ ااور عورت تو ویسے بھی کمزور ہے اور باقی اسے اس نفرت نے کمزور کر دیا ہے جو اسے معاشرے سے مل رہی ہے۔

 

 

 

جی ہاں بطور معاشرہ ہم عورت سے نفرت کرتے ہیں ۔۔۔۔ عورت بھی عورت سے نفرت کرتی ہے اور مرد تو کرتا ہی ہے۔ ہمارا بس چلے تو ہم چودہ سو سال پیچھے چلے جائیں اور ہر پیدا ہونے والی بچی کو زندہ گاڑھ دیں مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔ ہمیں مہذب ہونے کا ٹیگ لگوانا ہے اور تعلیم یافتہ کا بھی۔ اس لئے ہم کھلم کھلا اپنی بچیوں کو زندہ درگور نہیں کرتے۔۔۔۔ مگر جیسے ہی ہمیں موقع ملتا ہے تو ہم ماں، بیٹی ، بہن، بیوی کے رشتے کو بلائے طاق رکھ دیتے ہیں اور بہت خاموشی اور سفاکی سے کسی نا کسی عورت کو غیرت کے نام پر قتل کر کے چودہ سو سال سے بھی پرانی رسم کو پورا کر کے اپنی روایات کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

 

 

 جب یہ روایت مدہم پڑنے لگتی ہے تو کوئی نا کوئی جیالا اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور خدائی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور بیٹیوں کو خدا بن کر اس دنیا میں کبھی تو ان کے  عمال کی اور کبھی نا کردہ گناہوں کی سزا دیتا ہے۔۔۔۔  پھر کوئی نور المالکی قتل ہو جاتی ہے اور پھر کوئی المالکی کورٹ میں ڈھکوسلے بازی کرتا ہے ۔۔۔۔ ہمارے ہاں تو اس کی بھی نوبت نہین آتی ۔ ہم تو ایسے جی دار کے گلے میں پھولوں کے ہار  ڈالتے ہیں اور ڈھول تاشے کے ساتھ اسے کندھوں پر بٹھاتے ہیں ۔۔۔۔ دین کو زندہ رکھنا نعوذباللہ اتنا ضروری نہیں جتنا اپنے آباواجداد کی قبروں کو پوچنا ضروری ہے ۔۔۔۔ اے مسلمان امت تم سے لات و منات خوش ہوئے۔۔۔۔ تم نے پھر اپنی بیٹی، بہن، بیوی کی قربانی دی ۔۔۔۔تمھاری لازوال غیرت کو سلام!